سسکتی سلگتی خواہشات اور پیسہ۔۔۔۔۔!!!
ایک نئی نویلی دلہن نے اپنے بیرون ملک مال و دولت کمانے والے شوہر کو خط لکھا کہ میرے سرتاج مال ودولت تو زندگی کی ہر عمر میں کمایا جاسکتا ہے‘ جوانی کے تو چند دن ہوتے ہیں اور بہت جلد جوانی ڈھل جاتی ہے۔ کیا میں اسی طرح سالہا سال آپ کا انتظار کرکے اپنے سر کے بالوں میں چاندی بھرلوں گی؟ اپنے ہاتھوں سے رنگین مہندی کو مٹادوں گی‘ اپنے پاؤں کے پائل کی جھنکار جو صرف جوانی میں ہی اچھی لگتی ہے اتار کر اس تصور کے ساتھ رکھ دوں گی کہ اپنی بیٹی کو پہناؤں گی؟ اب میرے پہننے کی عمر ختم ہوگئی ہے۔ کیا میں جوانی کی حسرت اور امیدوں کو کسی طاق میں رکھ کر تالا لگا دوں؟ میں نے آنکھوں سے آپ کو چاہا ہے‘ آپ کے بول میرے کانوں میں رس گھولتے ہیں‘ آپ کی مسکراہٹ سے میری گھر کے سارے کاموں کی تھکن ختم ہوجاتی ہے۔ کیا یہ جذبات آپ کی تصویر دیکھ کر تسکین پالیں گے؟ نہیں!میرے سرتاج ہرگز نہیں‘ آپ واپس آجائیں‘ مجھے بھوک قبول ہے‘ پرانے کپڑے قبول ہیں‘ لیکن ان بچوں کواور اس جوانی کو آپ کا ساتھ چاہیے‘ ان جذبات کو آپ کا سہارا چاہیے۔ میں انتظار بہت کرچکی اب مجھے زیادہ انتظار نہ کروائیں۔‘‘قارئین! یہ الفاظ لکھتے ہوئے میں آپ آبدیدہ ہوں‘ جب بھی میرے پاس ایسی زندگیاں آتی ہیں میں تڑپ جاتا ہوں‘ میرے اندر کا حکیم طارق چیخ اٹھتا ہے‘ آخر کیوں؟ مال‘ دولت اور پیسے کیلئے وہ زندگی سسکتی اور سلگتی رہ جائے گی کیا مال دولت اور پیسہ سب کچھ ہوتا ہے؟ ایک خاتون اپنی انیس سالہ بیٹی کو ساتھ لیے کہہ رہی تھی اس کی منگنی ہے اور باپ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں تجھے منگنی کا تحفہ بھیجوں گا۔ بس یہ پیٹ میں تھی تو باپ اٹلی گیا‘ ابھی تک واپس نہیں آیا۔ سنا ہے اس نے وہاں کوئی شادی کررکھی ہے اس کی زندگی تو یوں گزر گئی میں اس کے انتظار ہی کی آہٹ کو سنتے سنتے بوڑھی ہوگئی۔ وہ بلک بلک کر رو رہی تھی پھر اس نے ایک کاغذ بیٹی سے علیحدہ مجھے پکڑایا جس کے اندر اس کے وہ گناہ تھے جس کا ذمہ دار صرف اس کا شوہر ہی ہوسکتا ہے۔ کیا اس کے ڈالر‘پونڈ‘یورو‘درہم‘ دینار‘ریال اس کو آخرت میں بیوی کی اس جواب دہی سے چھڑوا دیں گے؟؟؟کیا اس کو نجات مل جائے گی؟ ہرگز نہیں…!ایک خاتون کہنے لگی یہ بیٹا آٹھ سال کا ہوگیا ہے اور اس کی پیدائش سے چند ماہ پہلے اس کا باپ سائپرس یعنی یونان گیا پھر پلٹ کے نہ آیا۔ بیٹے نے نیٹ پر باپ کی تصویر دیکھی ہے باپ نے بھی نیٹ پر ہی بیٹے کی تصویر دیکھی ہے… حقیقت میںباپ نے بیٹے کو دیکھا نہ بیٹے نے باپ کو دیکھا۔ کہتا ہے جب میںسکول جاتا ہوں‘ بچے مجھ سے پوچھتے ہیں ہمارے ابو تو آتے ہیں‘ پرنسپل سے ملتے ہیں‘ ٹیچر سے ملتے ہیں‘ تیرے ابو تجھے کبھی چھوڑنے نہیں آئے۔ کیا تیرےابو نہیں ہیں؟ میں اپنے کلاس فیلوز کو وضاحتیں دیتے دیتے تھک گیا ہوں مجھے اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ میں کیا کروں؟ کہاں سے وضاحتیں لے آؤں میں تھک چکا ہوں اس کا کوئی وسیلہ میرے پاس نہیں ہے میں کس سے سوال کروں؟۔قارئین! معاشرے میں پھیلتا ہوا گناہ‘ اولاد کی بے راہ روی اس کے اسباب اور بھی ہیں لیکن ایک بڑا سبب باپ کی سرپرستی سے محروم اولاد اور شوہر کی سرپرستی سے محروم بیوی ہے۔ پھر وہ کیا کرے آخر اس کی زندگی کے ساتھ بھی تو جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ کیا مرد‘ عورتوں کے گناہوں کے ذمہ دار ہیں؟؟؟ جی ہاں…! یہ حقیقت ہے یہ سچ ہے‘ مجرم مرد ہیں…! عورتیں نہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں